رُکو، وہم و شبہات کا وقت ہے
کہاں جائو گے، رات کا وقت ہے
کسی بھاری پتھر تلے دے کے دل
یہ تخفیفِ جذبات کا وقت ہے
بدلنے پہ اس کے نہ یوں رنج کر
یہ معمولی اوقات کا وقت ہے
یہ کیا دل میں ریزہ رڑَکنے لگا
ابھی تو شروعات کا وقت ہے
گلے خشک، پیشانیاں تر بتر
عمل کے مکافات کا وقت ہے
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ سُن کے میرے عشق کی روداد کو
سُن کے میرے عشق کی روداد کو لوگ بھولے قیس کو فرہاد کو اے نگاہِ یاس!... -
آصف ثاقب ۔۔۔ ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے (خالد احمد کے نام)
ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے... -
شبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو...